حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امروہہ یکم ذی الحج حضرت علی علیہ السلام کی شادی کی مناسبت سے جامعه ھدیٰ میں تقریر کرتے ہوئے محقق مولانا ڈاکٹر شہوار حسین امروہوی نے کہا کہ " ﷲ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی بیٹی فاطمه الزھراء سلام اللہ علیہا کی شادی اس سادہ انداز سے کی کہ امت کا غریب سے غریب تر انسان اپنی بیٹی کی شادی کرکے فخریہ طور سے کہہ سکتا ہے کہ میں نے سیرت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے مطابق اپنی بیٹی کی شادی کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمارا معاشرہ شادی کو مال و دولت کی نمایش کا ذریعہ سمجھ رہا ہے اسراف اور فضول خرچی کر کے سوسائٹی میں اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر مال و دولت کی نمایش ہی کامیاب شادی کی علامت ہوتی تو ﷲ کے رسول اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اتنی سادگی سے نہ کرتے اگر چاہتے تو کائنات کی ہر نعمت دسترخوان پر ہوتی، قیمتی سے قیمتی چیز جہیز میں دیتے اور ایسی مثالی شادی کرتے کہ دنیا کے بادشاہ و سلاطین بھی دیکھتے رہ جاتے مگر ﷲ کے رسول نے تمام اختیارات کے باوجود سادہ شادی کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ کامیاب شادی کی علامت مال و دولت کی نمایش نہیں بلکہ شادی جتنی سادہ ہوگی اتنی ہی کامیاب اور بابرکت ہوگی۔
ڈاکٹر شہوار نے کہا کہ ﷲ کے رسول نے عقد کے لئے مسجد یعنی ﷲ کے گھر کا انتخاب کیا تاکہ رحمتوں کا نزول ہو اور ازدواجی زندگی میں پیار اور محبت قائم ہو، کیا آج رسول کا یہ عمل ہمارے لئے لایق اطاعت نہیں ہے؟ اگر ہم بھی اپنی نئی زندگی کا آغاز ﷲ کے گھر سے کریں تو ہماری زندگی بھی پر سکون اور بابرکت ہو سکتی ہے۔ آج ہماری شادی بیاہ سنت نبوی کے سایہ میں انجام نہیں پا رہی ہے، بلکہ دنیوی رسم و رواج کے زیر سایہ انجام پا رہی ہے یہی سبب ہے کہ ازدواجی زندگی سے برکتوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور لڑائی جھگڑا اس کی جگہ لے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات جو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر ﷲ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم چاہتے تو اپنے ذاتی مال سے فاطمه الزھراء کا جہیز دے سکتے تھے لیکن آپ نے مہر کے پیسوں سے جہیز دیکر شادی کو اتنا ہلکا اور آسان کر دیا تاکہ غریبوں کو اپنی بیٹی کی شادی کے لئے کوئی زحمت نہ ہو اگر آج ہماری سوسائٹی میں یہی سنت نبوی رایج ہو جائے تو معاشرہ کا ایک بڑا مسلہ حل ہو سکتا ہے